نقطہء نظر
فہرست
!!ملازمت میں توسیع کا نیا چلن
ملک کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں کہ قوانین و ملکی وسیع تر مفاد کو بالاء طاق رکھ کر صرف اپنی حکومتوں کو دوام دینے کی خاطر ذاتی مفاد کو مدنظر رکھ کر ہی حکومتیں فیصلے کرتی رہی ہیں ۔ ۔ ۔ ، ملازمتوں میں توسیع کرکے دوسرے لوگوں کا حق غصب کرنا بھی اسہی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور نیب سے متعلق صدارتی آرڈیننس کا اجرا بھی اسہی غرض سے کیا گیا ہے تاکہ اسکی آڑ میں موجودہ چیرمین نیب جنکی مدت ملازمت ختم ہورہی ہے اور نئے چیرمین نیب کی تقرری اتفاق رائے سے ہونا باقی ہے اس میں رخنہ ڈال کر موجودہ متنازع چیرمین ہی کی مدت ملازمت میں توسیع کردی جائے ۔ مدت ملازمت میں توسیع کا یہ ایک نیا چلن ہے جس سے لامحالہ یہ تعاثر جاتا ہے کہ ملک میں قابل لوگوں کا کال پڑ گیا ہے ۔ ۔ ۔ اور موجودہ شخص کی ملازمت میں توسیع ملک کے وسیع تر مفاد میں ضروری ہوگئی ہے ،، آرڈیننس عدالت میں چیلنج ہونے جارہا اسلیئے اسکے مستقبل کے بارے میں مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ، دیکھیں عدلیہ کیا فیصلہ صادر کرتی ہے
نقطہء نظر / جاوید احمد خان
یاد ماضی
کراچی کی ماضی سے جڑی خوشگوار ڈرائونی یادیں تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو ! یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب کراچی میں رات 9 بجے کے بعد سناٹے کا راج ہوتا تھا ، انتہائی ضرورت کے وقت باہر نکلا جاتا تھا ، سینما ہال سے آخری شو رات کو 9 سے 12 دیکھ کر آنے والے بھی سینما کا ٹکٹ سنمبھال کر رکھتے تھے تاکہ راستے میں پولیس والے کو دکھا کر اتنی رات کو باہر نکلنے کا ثبوت فراہم کرسکیں ، امن و امان کا دور تھا راستے میں لوٹ مار کا شاذ و نادر ہی کوئی واقعہ پیش آتا تھا صرف آوارہ کتوں کا راستے میں ڈر ہوتا تھا اسکے لیئے لوگ حفاظت کی خاطر معمولی سا ڈنڈا رات گئے باہر نکلتے وقت لے لیتے تھے ۔ ۔ ۔ ،، ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ڈرامے کراچی کے لوگوں کی واحد تفریح تھے خاص کر خواتین اجتماعی طور پر محلہ کے کسی ایسے گھر میں جہاں ریڈیو کی سہولت میسر تھی رات کو جمع ہوکر اسٹوڈیو نمبر9 سے نشر ہونے والے ڈرامے باقائدگی سے سنا کرتی تھیں اسہی دوران ایک مقبول عام ڈرامہ “کار ساز ” سے متعلق نشر ہواتھا جس میں ایک خاتون کو آسیب کے طور پر پیش کیا گیا تھا جو رات کے آخری پہر کارساز روڈ پر موجود ہوتی ہے اور ادھر سے آنے جانے والے سے لفٹ مانگتی ہے ۔ ۔ ۔ ،، اس ڈرامے نے جہاں لوگوں کے خاص کر خواتین کے رونگٹے کھڑے کر دیئے تھے وہیں سینہ گزٹ کے ذریعے کراچی کے لوگوں میں خود ساختہ قصے بھی کارساز روڈ سے متعلق مشہور ہونا شروع ہوگئے تھے ۔ ۔ ۔ ،، ایسا تھا میرا کراچی ” سادہ و معصوم ” پھر نہ جانے اسہے کسکی نظر کھا گئی ۔ ۔ ۔
یاد ماضی : جاوید احمد خان
!!نظریہ ضرورت و قومی مفاد
پاکستان کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ۔ ۔ ۔ ،، ریاستی و حکومتی اداروں اور سیاست دانوں کی جانب سے “نظریہ ضرورت” و “قومی مفاد” کا اپنے زاتی مفاد کی خاطر بے دریغ استعمال کیا گیا کبھی اسہی کی آڑ میں مارشل لاء لگا یا گیا تو کبھی حکومتیں برطرف کی گئیں ، کبھی سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگائی گئیں اور سیاسی لیڈروں کو غدار قرار دیکر پابند سلاسل کیا گیا اور پھر یک جنبش قلم انہی کو حب الوطنی کا پروانہ جاری کرکے حکومتوں میں شامل کر لیا گیا ، کبھی کسی شخصیت کو باہر سے درآمد کرکے عبوری حکومت کا سر براہ بنا کر مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کیئے گئے تو کبھی زاتی مفاد کی تقویت کی خاطر مختلف جماعتوں سے لوٹے نما سیاست دانوں کو اکھٹا کرکے راتوں رات نئی سیاسی جماعت کو کھڑا کردیا گیا یا سیاسی جماعتوں کے حصے بخرے کرکے مختلف دھڑوں میں بانٹ دیا گیا ۔ ۔ ۔ ،، سیاست دانوں کا کردار بھی اس سے مختلف نہیں رہا وہ بھی نظریہ ضرورت و قومی مفاد کا راگ الاپ کر قول و فعل کے تضاد کا شکار رہے ، ایک دوسرے کو غدار ، دہشت گرد و کفر کے فتوے صادر کرتے رہے اور وقت پڑھنے پر انہی کو گلے لگا تے رہے ، ہنوز اب بھی یہی سلسلہ جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہیگا جب تک عوام میں سیاسی شعور بیدار نہیں ہوجاتا ۔ ۔ ۔ ،،
نقطہء نظر : جاوید احمد خان
بنگلہ دیش
بنگلہ دیش کے عوامی انقلاب نے اسکی سیکولر ازم و بنگلہ قومیت کی عصبیت کو ترک کرکے دوبارہ ” دو قومی نظریہ” کی جانب رجوع کرنے نے جہاں دنیا کو حیران کیا ہے وہاں بھارت کو سب سے زیادہ پریشان کیا ہے جسکی سابقہ وزیر آعظم اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکہ کے وقت کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کو دو لخت کرکے اسکے قیام کے قائد آعظم کے اس دو قومی نظریئے (مسلم و غیر مسلم دو علیحدہ اقوام) جسکی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا تھا اسہے آج ہم نے خلیج بنگال میں پھینک دیا
لیکن شاید پاکستان کا ازلی دشمن بھارت یہ بھول گیا تھا کہ یہ وقتی عصبیت کی آندھی ہے جب یہ تھم جائیگی تو یہی بنگالی قوم دوبارہ سیکولر ازم و عصبیت ترک کرکے دو قومی نظریہ مسلم قومیت کی جانب رجوع کریگی ، کیونکہ تحریک پاکستان کی اصل معمار اسہی خطہ زمین کے باسی ہیں ، تحریک پاکستان اسہی ڈھاکہ سے شروع ہوئی تھی لاہور ، کراچی ، کوئٹہ یا پشاور سےشروع نہیں ہوئی تھی۔ بنگالیوں نے تو آل انڈیا مسلم لیگ کو بنگال میں 1937ء میں ہی حکومت دلوا دی تھی جبکہ قرارداد پاکستان اس کے تین سال بعد 23مارچ 1940ء کو منظور ہوئی تھی جو ایک تاریخی حقیقت ہے
(راقم الحروف : جاوید احمد خان)